تکبر واِستکبار مفتی منیب الرØ+مٰن


تکبُّر اور اِستکبارہے Û” اسی قبیØ+ خصلت Ù†Û’ شیطان Ú©Ùˆ ہمیشہ کیلئے راندۂ درگاہ کیا‘۔ﷲ عزّوجلّ کا ارشاد ہے: ''اور جب ہم Ù†Û’ فرشتوں سے فرمایا:آدم Ú©Ùˆ سجدہ کرو‘ تو ابلیس Ú©Û’ سوا سب فرشتوں Ù†Û’ سجدہ کیا ‘ اس Ù†Û’ انکار کیا اور تکبّرکیااور کافر ہوگیا‘‘ (البقرہ:44)Û” عُجب Ú©Û’ معنی ہیں ''غرور میں مبتلا ہونا‘‘ اور'' تکبُّر واِستکبار‘‘کے معنی ہیں ''خود Ú©Ùˆ بڑا گرداننا یا بڑا سمجھنا‘‘۔'' اَلْمُتَکَبِّر ْ‘‘ اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ صفتِ جلیلہ ہے ‘ Ø+قیقی کبریائی اور بڑائی صرف اسی Ú©ÛŒ شان ہے ‘ اسی لیے سورۃ الØ+شر آیت :23میں جہاں اﷲتعالیٰ Ú©ÛŒ ایک سے زائد صفاتِ جلیلہ Ú©Ùˆ ایک مقام پر بیان فرمایا ہے‘ ان میں ''Ø§ÙŽÙ„Ù’Ù…ÙØªÙŽÚ©ÙŽØ¨ÙÙ‘Ø ±â€˜â€˜Ú©ÛŒ صفت بھی ہے‘ اس Ú©Û’ معنی ہیں :'' بڑائی والا‘ عظمت والا‘‘۔ بقولِ علامہ اقبالؔ :

سر وری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
Ø+کمراں ہے اک وہی ‘ باقی بتانِ آزری
Ø+دیثِ قدسی میں رب ذوالجلال فرماتاہے: ''کبریائی میری ''رِدائ‘‘ اور عظمت میری ''اِزار‘‘ ہے ‘ سو (بندوں میں سے) جو ان صفات میں مجھے چیلنج کرے گا‘ تو میں اسے جہنم میں داخل کردوں گااور ایک روایت میں ہے : جہنم میں پھینک دوں گا‘‘(سنن ابن ماجہ:4175)Û” جب ''رِدائ‘‘ اور ''اِزار‘‘ Ú©ÛŒ نسبت اﷲ Ú©ÛŒ ذات Ú©ÛŒ طرف Ú©ÛŒ جائے ‘ تو اس Ú©Û’ وہی معنی مراد ہوں Ú¯Û’ ‘جو اس Ú©Û’ شایانِ شان ہیں۔ اﷲتعالیٰ Ú©ÛŒ ذات جسم‘ جسمانیات ‘ اِن Ú©Û’ عَوارض‘ لَوازِم اور مُتعلِّقات سے پاک ہے‘ مقدَّس اور مُعَرَّیٰ ہے Û” قرآن ÙˆØ+دیث میں اس طرØ+ Ú©ÛŒ نسبتیں انسانوں Ú©Ùˆ سمجھانے Ú©Û’ لیے ارشاد فرمائی گئی ہیں‘ ان سے ان Ú©Û’ Ø+قیقی معنی مراد نہیں ہوتے‘ بلکہ ذاتِ اُلوہیّت جلّ وعلاء Ú©Û’ شایانِ شان جو بھی معنی مراد ہوں ‘ ان پر ہمارا ایمان ہے۔ یہ ایسا ہی ہے‘ جیسے ہماری مثالی دنیا میں اعلیٰ مناصِب Ú©Û’ لیے ایک خاص یونیفارم یا لباس ہوتاہے۔Ø+دیثِ پاک سے مراد یہ ہے کہ''مُتَکَبِّر‘ €˜ گویا اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ شانِ کبریائی کوچیلنج کرتاہے یا اس جیسا بننے کا دعویٰ کرتاہے یا اپنے آپ Ú©Ùˆ ایسا سمجھتا ہے ‘ اسی بناپر اس کا ٹھکانا جہنم Ú©Ùˆ قرار دیا گیا ہے۔
اﷲتعالیٰ Ú©Ùˆ اپنے بندوں میں عَجز ونیازاور تواضع وانکسار Ú©ÛŒ صفات پسند ہیں‘ بلکہ عبادت Ú©Û’ معنی ہی اﷲتعالیٰ Ú©ÛŒ بارگاہ میں انتہائی تذلُّل (Submissiveness)Ú©Û’ ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''بے Ø´Ú© اﷲتعالیٰ مغرور ‘ متکبر Ú©Ùˆ پسند نہیں فرماتا‘‘ (النسائ:36)Û”(Û²)''اسی طرØ+ اﷲ ہر جبار متکبرکے دل پر (اس Ú©ÛŒ سرکشی Ú©Û’ وبال Ú©Û’ طور )مہر لگا دیتا ہے‘‘ (المؤمن:35)۔رسول اللہ ï·º Ù†Û’ فرمایا: ''قیامت Ú©Û’ دن متکبر ین Ú©Ùˆ (انسانی Ø´Ú©Ù„ میں )چھوٹی چھوٹی چونٹیاں بنا کر اٹھایا جائے گا ‘ لوگ انہیں روندیں Ú¯Û’ ‘ ہر چھوٹی چیز بھی ان پر مسلط ہوگی ‘ پھر انہیں جہنم Ú©Û’ اُس قید خانے Ú©ÛŒ طرف Ù„Û’ جایا جائے گا ‘ جسے ''بُولَس‘‘ کہتے ہیں اور ایسی آگ Ú©Û’ شعلے ان پر بلند ہوں Ú¯Û’ ‘ جو آگ Ú©Ùˆ بھی جلا ڈالے ‘ انہیں زہریلی مٹی اور جہنمیوں Ú©Û’ زخموں Ú©ÛŒ پیپ پلائی جائے گی‘‘ (ترمذی:2492)۔اس Ú©Û’ برعکس جو اﷲ Ú©Û’ Ø+ضور تواضع کرے ‘ اللہ تعالیٰ اسے سربلندی عطا فرماتاہے ‘ ارشادِ نبوی ہے: ''جو شخص اﷲتعالیٰ Ú©Û’ لیے ایک درجہ تواضع کرتا ہے ‘اللہ اس کا ایک درجہ بلند فرماتاہے اورجو شخص اللہ Ú©Û’ سامنے ایک درجہ تکبّر کرتاہے ‘اللہ اس Ú©Ùˆ ایک درجہ پست کردیتاہے؛Ø+تیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس Ú©Ùˆ سب سے Ù†Ú†Ù„Û’ طبقہ میں کردیتاہے ‘‘(سُنن ابن ماجہ:4176)Û” رسول اللہ ï·º Ù†Û’ ارشاد فرمایا: '' بدترین بندہ وہ ہے‘ جو تکبر کرے اور Ø+د سے تجاوز کرے اور ''جبّارِ اعلیٰ‘‘ Ú©ÛŒ ہستی Ú©Ùˆ بھول جائے‘ جو گھمنڈ میں مبتلا ہو اور اترائے اور خداوندِ کبیر ومُتَعال Ú©Ùˆ بھول جائے اور جو (اØ+کامِ خداوندی سے) غافل ہوجائے اور انہیں نظراندازکردے اور قبر اور اس میں گلنے سڑنے Ú©Ùˆ بھول جائے ‘ جو سرکشی اختیار کرے اور(اØ+کامِ الٰہی سے )بغاوت کرے اور اپنے آغاز وانجام Ú©Ùˆ بھول جائے‘‘(ترمذی:2448) ”
عبداللہ بن مبارک Ù†Û’ کہا: ''کمالِ تواضع یہ ہے کہ انسان دنیاوی اعتبار سے اپنے سے Ú©Ù… تر Ú©Û’ ساتھ تواضع کرے ‘ یہاں تک کہ اسے اØ+ساس ہوجائے کہ دنیاوی جاہ ومنصب Ú©ÛŒ بنا پر آپ Ú©Ùˆ اس پر کوئی فضیلت Ø+اصل نہیںہے اور یہ کہ جو دنیاوی اعتبار سے اس سے برتر ہے ‘ اپنے آپ Ú©Ùˆ اس Ú©Û’ آگے ذلیل نہ کرے ‘تاکہ اسے معلوم ہوجائے کہ اس Ú©ÛŒ دنیاوی برتری Ø+قیقت میں فضل وکمال نہیں ہے‘‘۔ قتادہ Ù†Û’ کہا : '' جسے اﷲتعالیٰ Ù†Û’ مال یا جمال یا علم یا اسبابِ ظاہری سے نوازا ہو اور پھر وہ تواضع نہ کرے تو قیامت Ú©Û’ دن یہی نعمتیں اس Ú©Û’ لیے وبال بنیں گی‘‘۔ ایک روایت میں ہے: ''اﷲتعالیٰ Ù†Û’ عیسیٰ علیہ السلام Ú©Ùˆ ÙˆØ+ÛŒ فرمائی کہ جب میں آپ Ú©Ùˆ نعمتوں سے نواز ÙˆÚº تو آپ عاجزی اختیار کریں‘ تاکہ میں تکمیل ِ نعمت کروں‘‘(اِØ+یاء علومِ الدین ‘ جلد:3ص:419)۔متکبر Ú©ÛŒ ایک پہچان اَڑیل پن ‘ ہٹ دھرمی اور Ú©Ù¹ Ø+جتی ہوتی ہے‘ وہ Ø+Ù‚ Ú©Û’ آگے سرتسلیم خم نہیں کرتا‘بلکہ عقلی دلائل سے اسے رد کرتاہے؛ Ø+الانکہ ایمان Ú©ÛŒ Ø+قیقت ا ورمومن Ú©ÛŒ پہچان یہ ہے کہ وہ اﷲتعالیٰ اور اس Ú©Û’ رسولِ مکرم ï·º Ú©Û’ فرمان Ú©Û’ آگے بلاچوں وچرا سرتسلیم خم کردیتاہے۔ اسے عقل Ú©ÛŒ کسوٹی پر نہیں پرکھتا‘ بلکہ عقل Ú©ÛŒ راستی اور اِصابت (Righteousness) کیلئے ÙˆØ+یِ ربانی Ú©Ùˆ کسوٹی بناتاہے اوراسی نتیجۂ فکر Ú©Ùˆ راست اور Ø+Ù‚ سمجھتا ہے ‘ جو ÙˆØ+ÛŒ Ú©ÛŒ کسوٹی پر پورا اترے‘جو عقل Ú©Ùˆ مطلقاً معرفتِ Ø+Ù‚ کیلئے میزان اور کسوٹی بنائے‘و ہ زندیق ہے اوریہی ابلیس کا شِعار ہے۔ اﷲتعالیٰ ارشاد ہے: ''اور(اے آدم!) ہم Ù†Û’ تم Ú©Ùˆ پیدا کیا ‘ پھر تمہاری صورت بنائی ‘ پھر ہم Ù†Û’ فرشتوں سے کہا: آدم Ú©Ùˆ سجدہ کرو تو ابلیس Ú©Û’ سوا سب Ù†Û’ سجدہ کیا (اور) وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا ‘ (اللہ تعالیٰ Ù†Û’ ) فرمایا: تجھ Ú©Ùˆ سجدہ کرنے سے کس چیز Ù†Û’ منع کیا‘ جبکہ میں Ù†Û’ تمہیں Ø+Ú©Ù… دیا تھا؟‘ اُس Ù†Û’ کہا میں اس سے بہتر ہوں ‘ تو Ù†Û’ مجھ Ú©Ùˆ آگ سے پیدا کیا ہے اور اس Ú©Ùˆ مٹی سے پیدا کیا ہے‘ (اﷲتعالیٰ Ù†Û’ ) فرمایا: تو یہاں سے اتر ‘ تجھے یہاں گھمنڈ کرنے کا کوئی Ø+Ù‚ نہیںپہنچتا‘‘(Ø §Ù„اعراف:12-13)Û” یعنی آگ لطیف ہے اور مٹی کثیف ‘ اور لطیف چیز کثیف سے افضل ہے‘ تو میں اپنے جوہرِ تخلیق Ú©Û’ اعتبار سے افضل ہو کر ادنیٰ Ú©Û’ سامنے سجدہ کیسے کروں؟ اسے عقل نہیں مانتی‘ دلیل اس کا ساتھ نہیں دیتی۔ سو‘اُس Ù†Û’ عقلی دلیل سے اللہ تعالیٰ Ú©Û’ Ø+Ú©Ù… Ú©Ùˆ رَد کردیا اور راندۂ درگاہ ہوااور فرشتوں Ù†Û’ بلاچوں وچرا اللہ تعالیٰ Ú©Û’ Ø+Ú©Ù… Ú©Ùˆ تسلیم کیا اور آدم علیہ السلام Ú©Û’ سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ فرشتوں Ú©Ùˆ معلوم تھا کہ کمال نہ آگ میںہے ‘ نہ ذرۂ خاک میں ہے‘ کمال تو ربِّ ذوالجلال Ú©ÛŒ عطا میں ہے‘ وہ چاہے تو ذرّے Ú©Ùˆ آفتاب سے بالا کردے ‘ قطرے Ú©Ùˆ سمندر کردے اور خاک Ú©Û’ پتلے آدم Ú©Ùˆ رشک ملائک بنادے۔
پس ‘متکبر Ú©ÛŒ ایک پہچان خود سری ‘ خودی فریبی اوراپنی ذات Ú©Ùˆ راستیِ فکر (Self Righteousness)کا Ø+امل سمجھنا ہے‘ ایسے شخص پر اﷲتعالیٰ معرفتِ Ø+Ù‚ Ú©Û’ دروازے بند کردیتا ہے اور فریبِ نفس میں مبتلا ہوکر وہ اپنی خطا Ú©Ùˆ صواب ‘ باطل Ú©Ùˆ Ø+Ù‚ ‘ ظلم Ú©Ùˆ عدل اور ناروا Ú©Ùˆ روا سمجھنے لگتاہے۔ آج ہم اپنے پورے ماØ+ول اور نظام کا جائزہ لیں تو ہم پر عیاں ہوگا کہ بØ+یثیت ِ مجموعی ہم اسی مرض میں مبتلا ہیں Û” یہ فریب ِ نفس انفرادی بھی ہوتاہے اور گروہی اور طبقاتی بھی Û” یہی وجہ ہے کہ آج ہم میں کتنے ہی گروہ ہیں‘ جنہوں Ù†Û’ شریعت Ú©Û’ مسلّمہ معیارات Ú©Ùˆ رد کرکے اپنے اپنے معیارات وضع کرلیے ہیں ‘ علامہ اقبالؔ کا یہ فرمان سچ ہے:
Ø+قیقت خرافات میں Ú©Ú¾Ùˆ گئی
یہ اُمت روایات میں کھو گئی
بندہ جب خودرائی ‘ خود نگری ‘ خود فریبی اور عُجبِ نفس میں مبتلاہوتاہے ‘ تو خود Ú©Ùˆ بڑا سمجھنے لگتا ہے اور دوسروں Ú©Ùˆ اپنے مقابلے میں Ø+قیر جاننے لگتا ہے‘ Ø+دیثِ پاک میں ہے۱)''رسول کریم ï·º Ù†Û’ فرمایا: جس Ú©Û’ دل میں ذرہ بھر بھی تکبر ہوگا ‘ وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا‘ ایک شخص Ù†Û’ عرض Ú©ÛŒ: (یارسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم!) انسان چاہتا ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو‘ جوتے اچھے ہوں‘(کیا یہ تکبر ہے؟) آپ ï·º Ù†Û’ فرمایا: (نہیں)‘ بے Ø´Ú© اللہ تعالیٰ(اپنی ذات ‘ صفات اور افعال میں) جمیل ہے اوراپنی صفتِ جمال کا ظہور( اپنی مخلوق میں بھی ) پسند فرماتاہے ‘تکبر تو Ø+Ù‚ Ú©Û’ انکار اور لوگوں Ú©Ùˆ (اپنے مقابلے میں) Ø+قیر جاننے کا نام ہے‘‘(مسلم:147)Û”